دھوکا دہی والا گاؤں

Horror all age range 2000 to 5000 words Urdu

Story Content

دور افتادہ گاؤں، دھوکا دہی والا، ایک دائمی خوف کی چادر میں لپٹا ہوا تھا۔ یہاں، ہوا سرگوشیوں میں خوفناک کہانیاں لاتی تھی، اور شام سائے لے کر آتی تھی جن میں خوف پنہاں ہوتا تھا۔
گاؤں کی تاریخ میں دفن ایک ہولناک راز تھا - ایک لالچی زمیندار، سردار کے ظلم کی داستان۔ سردار نے انصاف اور رحم دلی کو پامال کرتے ہوئے، بے گناہ کسانوں سے ان کی زمین چھین لی تھی۔ ان کسانوں کی چیخیں، اس ناانصافی کی گونج اب بھی ہوا میں بسی ہوئی تھی۔
یہ ناانصافی ایک سیاہ داغ بن کر اس گاؤں پر پڑ گئی، یہاں تک کہ ایک اندھیرا پھیل گیا جس سے کوئی بھی نہ بچ سکا۔ جیسے ہی سورج غروب ہوتا، خوف کی ایک موٹی تہہ گاؤں کو ڈھانپ لیتی۔
ایسے ہی ایک تاریک دن میں، ایک نوجوان لڑکا، ساجد اپنے گاؤں واپس آیا۔ وہ شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گیا تھا، لیکن گاؤں کی پرانی کہانیاں اس کے ذہن میں رچ بس گئی تھیں۔
ساجد کا گھر گاؤں کے کنارے پر واقع تھا۔ اس کے آتے ہی، سرد ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں جم گئیں۔ پرانا، خستہ حال گھر اب کسی خوفناک داستان کی تصویر پیش کر رہا تھا۔
رات کی تاریکی بڑھنے کے ساتھ، عجیب و غریب آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ساجد نے ہر طرف دیکھا، لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا۔ پھر ایک کمزور سی آواز نے اس کا نام پکارا۔ وہ کانپ اٹھا، اس آواز میں ایک درد تھا، ایک پکار تھی۔
اس نے دل کو مضبوط کیا اور آواز کی سمت چل پڑا۔ وہ گاؤں کے پرانے کنویں کے پاس پہنچا۔ یہ کنواں ایک بدقسمتی کی علامت تھا، کیونکہ اسی جگہ پر کئی کسانوں کو زمیندار کے حکم پر پھانسی دی گئی تھی۔
کنویں کے اندر سے آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ نیچے جھکا اور اندر جھانکا۔ وہاں اندھیرا تھا، مگر پھر اس نے کچھ حرکت کرتے ہوئے دیکھا۔
یکدم، ایک سرد ہاتھ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ چیخ اٹھا اور پیچھے ہٹ گیا۔ وہ ہاتھ سرد اور بے جان تھا۔
اس رات سے ساجد کی زندگی بدل گئی۔ وہ دن رات خوف میں مبتلا رہنے لگا۔ اسے ہر وقت محسوس ہوتا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
اس نے گاؤں کے بزرگوں سے اس بارے میں بات کی، تو انہوں نے اسے بتایا کہ گاؤں سردار کی بددعاؤں سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ سردار کی روح اب بھی ان زمینوں پر گھومتی ہے، انصاف کی بھیک مانگتی ہے۔
ساجد نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرے گا۔ وہ سردار کی قبر پر گیا اور وہاں ان تمام کسانوں کی طرف سے معافی مانگی جن کے ساتھ سردار نے ظلم کیا تھا۔
اس رات ساجد کو خواب آیا۔ خواب میں ان کسانوں کی روحیں اس کے پاس آئیں اور اس کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اسے بتایا کہ وہ اب آزاد ہیں اور اس گاؤں کو بھی آزاد کر دیا جائے گا۔
اگلے دن، جب ساجد اٹھا، تو اس نے محسوس کیا کہ گاؤں میں کچھ سکون ہے۔ خوف کی وہ چادر ہٹ چکی تھی۔ گاؤں کے لوگوں نے مسکرانا شروع کر دیا۔
لیکن، کیا یہ واقعی ہمیشہ کے لیے سکون تھا؟ گاؤں کی تاریخ کے زخم اتنی آسانی سے کیسے بھر سکتے ہیں؟ ابھی تک بہت سے سوالات جواب طلب تھے۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ساجد نے سردار کی روح کو سکون بخشا ہے، لیکن کچھ کا کہنا تھا کہ سردار اب ایک نئے روپ میں واپس آئے گا، اور پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگا۔
وقت گزرتا گیا، گاؤں میں زندگی معمول پر آنے لگی۔ لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہو گئے، لیکن ایک انجانا خوف ان کے دلوں میں ابھی باقی تھا۔
ایک شام، جب ساجد اپنے گھر واپس آ رہا تھا، تو اس نے دور سے ایک سایہ دیکھا۔ وہ سایہ دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ساجد کی سانسیں تھم گئیں۔
جیسے ہی سایہ قریب آیا، ساجد نے دیکھا کہ وہ سردار ہے۔ سردار کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ تھی۔
سردار نے ساجد کو پکڑ لیا اور اسے کنویں کی طرف لے گیا۔ ساجد نے مدد کے لیے چیخنے کی کوشش کی، لیکن اس کی آواز بند ہو گئی۔
سردار نے ساجد کو کنویں میں پھینک دیا۔ ساجد گہری کھائی میں گرتا چلا گیا۔
اگلے دن، گاؤں کے لوگوں نے ساجد کی تلاش شروع کی۔ آخر کار، انہیں ساجد کی لاش کنویں میں ملی۔
گاؤں کے لوگوں نے ساجد کو دفن کر دیا۔ لیکن، اس رات سے، گاؤں میں ایک بار پھر خوف و ہراس پھیل گیا۔
اب گاؤں کے لوگ نہ صرف سردار سے ڈرتے تھے، بلکہ ساجد کی روح سے بھی ڈرتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ ساجد انتقام لینے کے لیے واپس آیا ہے۔
کیا واقعی ساجد انتقام لینے آیا تھا، یا گاؤں والوں کا خوف ان کی اپنی تخلیق تھا؟ کیا سردار کی روح کبھی سکون پا سکے گی، یا یہ گاؤں ہمیشہ کے لیے دھوکا دہی والا ہی رہے گا؟ یہ وہ سوالات تھے جن کے جوابات کسی کے پاس نہیں تھے۔